WHY THE BLOOD-MONEY (DIYYAH) OF WOMEN IS HALF? (IN THE LIGHT OF QURAN)

Abstract
اسلامی قوانین میں زندگی کے تمام پہلو مدّنظر رکھے گئے ہیں۔ میراث، دیت بھی انہی کا ایک شعبہ ہے نہ کہ مکمل اسلام۔ صرف اقتصادی پہلو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام میں عورت اور مرد کے حقوق برابر نہیں۔ بلکہ مرد اور عورت کے لئے کچھ مخصوص ذمہ داریاں ہیں۔دیت در حقیقت انسان کے جسمانی نقصان کو پورا کرنے کے لئے ادا کی جاتی ہے۔ اس کا معنوی مقام و مرتبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مرد کی دیت کا زیادہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ شرعی اور انسانی حیثیت سے عورت سے افضل ہے۔اسی طرح میراث میں ہر جگہ عورت کا حصہ مرد سے کمتر نہیں ہے، کئی مقامات پر برابر اور کئی مقام پر زیادہ ہے۔ دیت ایک لحاظ سے اس نقصان کا جبران کرتی ہے جو ایک گھر کو مقتول کی وجہ سے اٹھانا پڑتا ہے اور اقتصادی نکتہ نظر سے اصل کردار چونکہ مرد کا ہوتا ہے اسی لئے مرد کی دیت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ بعض اوقات عورت گھر کی اقتصادی ذمہ داریاں پوری کرتی ہے تو جواب یہ ہے کہ قانون اکثریت کے لئے بنتا ہے نہ کہ اقلیت کے لئے۔مختصر یہ کہ دیت مالی اور اقتصادی نقصان کا جبران ہے اور مالی اور اقتصادی لحاظ سے مرد عورت سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔اس لئے اس کی دیت اور میراث عورت سے زیادہ ہوتی ہے اس مقالے میں شرعی ادلہ کے ذریعے اس مسئلے کوسمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

Syed Muzammil Hussain Naqvi. (2017) عورت کی دیت آدھی کیوں؟ قرآن کی روشنی میں , Noor-e-Marfat, Volume 08, Issue 2.
  • Views 1276
  • Downloads 135

Article Details

Journal
Volume
Issue
Type
Language
Received At
Accepted At